Maktaba Wahhabi

98 - 158
’’ امانت اور عہد پردہ دینی و دنیوی امر جس کا انسان حامل ہو ان سب کو جامع ہے۔ چاہے وہ امر قولی ہو یا فعلی اور یہ لوگوں سے تعلقات و میل جول اور ان سے عہد و پیمان سب کو شامل ہے اور اس کی غرض و غایت اس کی حفاظت اور اس کی تکمیل ہے۔‘‘ امانت کی اسی اہمیت کی وجہ سے اور اس کی انتہائی سنگینی اور ذمہ داری کی وجہ سے پہاڑوں ، ساتوں آسمانوں اور زمین نے اپنی مضبوطی وقوت خلقی کے باوجود اس کو اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس کو انسان نے اٹھایا ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo﴾ (الاحزاب: ۲۷) ’’ہم نے یہ امانت (یعنی احکام ) آسمان و زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی؛انہوں نے اس کی ذمہ داری سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اپنے ذمہ لے لیا، بے شک وہ ظالم اور جاہل (یعنی لاعلم) ہے۔‘‘ اللہ پاک نے انسان کو یہاں جہالت اور ظلم کی صفت سے موصوف کیا ہے۔ اس لیے نہیں کہ اس نے امانت کی ذمہ داری قبول کی، اس کی ذمہ داری قبول کرنا تو سراسر شرف و فضیلت کا باعث ہے بلکہ اس لیے کہ انسان نے اس امانت کی ذمہ داری لینے کے بعد اس کے تحفظ و تکمیل اور وجوب ادائیگی ترک کر دی۔ درحقیقت امت مسلمہ میں امانت کی ادائیگی میں کوتاہی بہت حد تک بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ امانت رکھوانے والے شخص کے مال میں خیانت اور ملازمین اورمزدوروں سے کیے گئے عہد کی تکمیل کے برعکس عہد شکنی اور ان کی حق تلفی کرنا عام ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت کے متعلق خوب تاکید اور اہتمام رہا حتیٰ کہ اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات میں بھی۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی پیشین گوئی کی کہ امت میں
Flag Counter