وہ حقوق اجمالاً یہاں مذکور ہیں : ۱۔ جو کھانا خود کھایا جائے ان غلاموں کو بھی اسی کھانے میں سے کھلایا جائے۔ ۲۔ جو لباس خود پہنا جائے ان کو بھی ویسا ہی لباس پہنایا جائے۔ ۳۔ ان سے کام کراتے وقت اس بات کا لحاظ رکھنا کہ وہ کام ان پر بھاری بوجھ نہ ہو۔ ۴۔ ان سے کام کراتے وقت ان کی مدد کرنا، ان کا دل خوش کرنے اور تخفیف کے طور پر۔ ۵۔ ان کوسزا نہ دی جائے[مارپیٹ نہ کی جائے]۔ ۶۔ ان کو عار نہ دلائی جائے۔ ۷۔ انہیں اپنا مسلمان بھائی سمجھاجائے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تمہارے غلام (بھی) تمہارے بھائی ہیں ۔ اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت بنایا ہے، تو اللہ جس کے زیردست اور (تحت حکم) اس کے کسی بھائی کو کر دے تو اس کو چاہیے کہ اس کو وہ کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہ پہنائے جو خود پہنتا ہے اور تم لوگ (اپنے) غلاموں کو کسی ایسے کام کا مکلف نہ کیا کرو جو اس کے لیے بہت بھاری ہو اور اگر ایسے کام کا مکلف کرو تو پھر اس کام میں خود اس کی مدد کیا کرو۔‘‘ (متفق علیہ) ۸۔ ان کی مزدوری اوراجرت کی جلد ادائیگی کرنا اور اس میں ٹال مٹول نہ کرنا چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ پاک فرماتے ہیں : ’’ تین آدمی ایسے ہیں کہ میں قیامت کے دن ان سے جھگڑوں گا (یعنی ان سے جھگڑ کر وہ حق اس کے حق دار کو دلواؤں گا جس کی ادائیگی میں ان تینوں نے کوتاہی کی ہو گی)؛ ایک وہ شخص جس نے میرا تابع و فرمانبردار (ہو کر بیعت کی) ہو؛اور پھر اس نے غداری کر لی اور بے ایمان ہو گیا (بیعت توڑ دی)۔ دوسرا وہ شخص جس نے آزاد آدمی کو (اغوا کر کے) بیچ دیا؛ اور اس کی قیمت کھا لی۔ اور تیسرا وہ شخص جس نے اجرت پرمزدور رکھا، اس سے پورا کام لیا اور پھر اسے اس |