۷۔ خمس اور فے (بلا جنگ و جدال کے ساتھ حاصل ہونے والا مال غنیمت) میں انہیں ان کا حق دینا۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ﴾ (الانفال: ۴۱) ’’جان لو کہ تم جو غنیمت حاصل کرتے ہو تو اس کا خمس اللہ، رسول، قرابت داروں ، یتیموں ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مَا اَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرَی فَلِلَّہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُولَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo﴾ (الحشر: ۷) ’’بستیوں والوں سے اللہ نے اپنے رسول کو جو مال فے دیا ہے وہ اللہ، رسول، قرابت داروں ، یتیموں ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ (مال) صرف مال داروں کے درمیان نہ گھومے اور جو تم کو پیغمبر دے اسے قبول کر لو اور جس سے تمہیں روکے اس سے رک جاؤ۔‘‘ ہمیشہ سے مسلمانوں کے عقائد میں یہ اس بات کی تصریح چلی آئی ہے کہ اہل بیت کو ان کے حقوق ادا کیا کرو۔ جیسا کہ تیسری صدی ہجری کے علماء میں سے حنفی عالم الامام ابو جعفر الطحاوی کی تالیف ’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ میں ہے کہ جس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن جو کہ ہر عیب سے پاک ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد جو ہر خباثت سے پاک ہیں کہ متعلق اچھا تذکرہ کیا جو برائی سے خالی ہو وہ نفاق سے بری ہوا۔ اور جیسا کہ ساتویں صدی ہجری کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ الحنبلی کی اہل سنت و الجماعت کے عقائد کے ذکر کے سیاق میں مولف |