اور بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: ’’تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔‘‘ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے، شاید کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کروائیں ۔‘‘ (اخرجہ البخاری) اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! مجھے اس سے محبت ہے، پس تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت فرما۔‘‘(متفق علیہ) اور حق سبحانہ و تعالیٰ کا آپ کی ازواج مطہرات کے بارے ہے: ﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ﴾ (الاحزاب: ۶) ’’(یہ) نبی مومنوں کو ان کی جانوں سے بھی زیادہ پیارا ہے اور آپ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔‘‘ آیت مباہلہ میں اللہ تعالیٰ کا ان کو مباہلہ کے لیے خاص کرنا ان کی فضیلت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَ اَبْنَآئَ کُمْ وَ نِسَآئَ نَا وَ نِسَآئَ کُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَo﴾ (آل عمران: ۶۱) ’’پس آپ کے پاس علم کے آ جانے کے بعد جو شخص بھی آپ سے جھگڑے تو آپ (اس سے) کہہ دیں کہ ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں ، اپنی بیٹیوں اور تمہاری بیٹیوں کو، اپنی عورتوں اورتمہاری عورتوں کو، اپنے نفسوں اور تمہارے نفسوں کو بلاتے ہیں ، پھر مباہلہ کر کے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں گے۔‘‘ |