کر کے لکھتے ہیں اور کہتے ہیں اسی طرح غیر عرب مسلمان بھی اس طرح کی کارروائی کو ’’ربا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں ۔ اسی طرح آج کل بینکوں والے ایک جدید (سودی حیلہ) کا سہارا لیتے ہیں جس کو وہ ’’تورق‘‘ کہتے ہیں ۔ وہ لوگوں کی جہالت و غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تورق کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ، جبکہ فقہاء نے جس چیز کو تورق کہا ہے اس کی بعض فقہاء جائز اور بعض حرام کہتے ہیں اور یہ ’’تورق‘‘ اس سودی حیلہ سے مختلف اور الگ ہے جس کو بینکوں والے ’’تورق‘‘ کہتے ہیں اگرچہ ظاہری شکل میں دونوں ایک جیسی چیزیں ہیں اللہ کا فرمان ہے: ﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا﴾ (البقرۃ: ۲۷۵) ’’یہ بسبب اس کے کہ یہ کافر کہتے ہیں کہ بلاشبہ بیع تو سود کی طرح چیز ہے۔‘‘ اس ملعون اور ناپاک حیلہ اور ’’مخرج شرعی‘‘ کے درمیان ظاہری مشابہت کے باوجود بڑا باریک فرق ہے لیکن بحمد اللہ وہ واضح ہے۔ فرق اس بنیاد پر ہے کہ طرفین کے قصد اور ارادے کو دیکھا جائے گا اگر ان کا قصد سود ہے تو معلوم ہوا کہ یہ ملعون اور ناپاک حیلہ ہے اور ’’مخرج شرعی‘‘ نہیں ہے۔ قرض دینے والے بینک اور قرض خواہ کے درمیان میں اس کارروائی پر باہمی اتفاق طرفین کی نیت پر مبنی ہوتا ہے کہ دونوں سودی معاملہ کو شرعی عقد کی شکل اور نام دے کر سود کا ارتکاب چاہتے ہیں ۔ جیسا کہ سود اس طرح کے حیلوں ، بہانوں سے بھی متحقق ہوتا ہے جیسا کہ صراحۃً ’’سودی معاملات‘‘ کی تصریح یا بینک کی اصطلاح میں ’’پرافٹ‘‘ کے نام سے متحقق ہو جاتا ہے تو اعتبار نیت کا ہے۔ ’’تحریم شرعی‘‘ کے مقاصد کے ملاحظہ سے واضح پتا چلتا ہے کہ جس چیز کو آج کل بینک والے ’’تورّق‘‘ کہتے ہیں یہ دراصل حیلۂ ملعونہ اور ناپاک حیلہ ہے۔ |