﴿فَبِطُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلُّتْ لَہُمْ وَ بِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًاo وَّ اَخْذِہِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُہُوْا عَنْہُ وَ اَکْلِہِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًاo﴾ (النساء: ۱۶۰-۱۶۱) ’’تو ہم نے یہودیوں کے ظلموں کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزں جو ان کے لیے حلال تھیں حرام کر دیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے تھے اور اس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے ہم نے درد دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ حتیٰ کہ زمانہ جاہلیت کے بھی بعض قوانین میں جیسے قانون حمورابی اور بعض فرعونی مصر کے قوانین، یہاں تک کہ دور حاضر کے سیکولر قوانین میں بھی سود کی کچھ اقسام حرام ہیں ۔ جیسا کہ فرانسیسی قانون نمبر (1935) دفعہ نمبر 622 میں بھی یہ بات ہے۔ جو کہ اٹلی کا جرائم سے متعلق (کرمنل) قانون ہے۔ اور ہماری شریعت مطہرہ میں بھی سود حرام ہے۔ سود کھانے والوں کے لیے قرآن پاک میں ایسی ایسی وعیدیں وارد ہوئی ہیں جو کسی اور گناہ گار کے لیے نہیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ﴾ (البقرۃ: ۲۷۵) ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قبروں سے اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنایا ہو۔‘‘ بلکہ اللہ نے ان سے اعلان جنگ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ﴾ (البقرۃ: ۲۷۸-۲۷۹) |