ارباب حل و عقد پر۔ یہ سب اس صحیح عقیدے کے وجود کی حفاظت کے لیے ہے جو کہ اسلام کو ایک محفوظ قلعہ فراہم کرتا ہے۔ بلاشبہ شریعت اسلامیہ، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پراعتماد ؛اوران سے دین کا حصول تن تنہا دین کے تحفظ، استحکام اوربقاء کی ضمانت ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کا وجود مختلف پہلوؤں سمیت مکمل ہونے پر ہی اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا؛ فرمان الٰہی ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ: ۳) ’’آج میں نے مکمل کر دیا تمہارے لیے تمہارا دین اورتم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کر لیا۔‘‘ لہٰذا دین مکمل اور تمام ہونے کے بعد کسی بھی قسم کی زیادتی، نقصان یا تبدیلی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور جس نے اس کی کوشش کی تو وہ بدعتی، افتراء پرداز اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی کرنے والا ہے: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ (الحجرات: ۱) ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے پیش روپیش قدمی مت کرو۔‘‘ بلاشبہ دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرنا اسلام کی سربفلک عمارت کو ڈھانے میں تخریب کار کدال کا کردار ادا کرتا ہے اور امت مسلمہ کی وحدت کو اختلاف و افتراق اور پھر دشمنی، بغض اور باہم برسرپیکار کرنے کی دھمکی دینے میں خطرناک ترین ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں نئی ایجادات اور بدعات سے اجتناب کی پر زور اور تاکیدی وصیت فرمائی ہے۔ بدعت کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے اور یہ گناہ سراسر گمراہی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صفت بیان کی ہے کہ: ’’اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔‘‘ (اخرجہ النسائی و ابن خزیمہ فی صحیحہ) |