Maktaba Wahhabi

93 - 250
(الف) امام احمد، مسند احمد جیسی عظیم کتاب کے مصنف ہیں، جس میں وہ باسند احادیث تفسیر اور احادیث ملاحم و مغازی لے کر آئے ہیں۔ (ب) امام احمد، علی بن ابی طلحہ کی سند سے مروی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے تفسیری اقوال کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ بمصر صحيفة في التفسير، رواها عليٰ ابن ابي طلحة عن ابن عباس لو رحل رجل فيها اليٰ مصر ماكان كثيراً‘‘ [1] ’’مصر میں تفسیر کا ایک کتابچہ ہے جسے علی ابن ابی طلحہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے حصول کے لیے مصر تک سفر کرے تو یہ کوئی زیادہ سفر نہیں۔‘‘ (ج) صحیح بخاری میں امام بخاری نے اس صحیفہ پر اعتماد کیا ہے۔ [2] (د) کتب احادیث میں تفسیر اور مغازی کے بارے میں مسند احادیث کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ اس کے پس منظر میں اگر امام احمد کے اس قول کو دیکھا جائے تو ان کے اس قول کی یہی توجیہہ ہو سکتی ہے کہ امام صاحب اپنے اس قول سے علم مغازی، علم ملاحم اور علم تفسیر کی وہ تفصیلات و مرویّات مراد لے رہے ہیں جو بےسند ہیں، تو اس معنی میں یہ قول اپنی جگہ حقیقت ہے۔ سیرومغازی کی بہت ساری تفصیلات، مثلاً شرکاء جنگ کی تعداد، مقتولین کی تعداد، شہداء کی تعداد، تلواروں کی تعداد، گھوڑوں اور نیزوں کی تعداد اور کچھ پیش آنے والے واقعات میں راویوں کا بھرا ہوا رنگ بتلاتا ہے کہ واقعتاً ہی اس طرح کی کئی تفصیلات کی متصل سند موجود نہیں ہے۔ اس طرح علم تفسیر میں بعض واقعات کی رنگ آمیز تفصیلات، متعدد اسرائیلی روایات و حکایات، ہر سورت کے فضائل میں احادیث اور روافض کے ہاں اہل بیت کے فضائل میں
Flag Counter