Maktaba Wahhabi

84 - 250
سیدنا عثمان بن عفان اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما وغیرہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھتے اور جب ان دس آیات میں پائے جانے والے علم و عمل کے پہلو سیکھ نہ لیتے آگے سبق حاصل نہ کرتے، صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن، علم اور عمل تینوں کی تعلیم بیک وقت حاصل کی ہے۔‘‘ صحابہ کرام کس قدر صاف الفاظ میں وضاحت فرما رہے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کی آیات، ان کے مفاہیم اور ان پر عمل کا طریقہ ایک ساتھ سیکھا اور یہ بات تو ایک ادنیٰ طالب علم پر بھی واضح ہے کہ صحابہ دین کی تعلیم کو آگے پہنچانے پر مامور تھے۔ دین کی تعلیم میں قرآن مجید کی تعلیم سے زیادہ اہم کیا چیز ہو سکتی ہے؟ کیا صحابہ نے قرآن سیکھنے کے بعد اسے آگے پہنچانے میں کوتاہی کی یا نعوذباللہ اس فرض کی ادائیگی میں ذمہ داری کا ثبوت فراہم نہیں کیا؟ یہ تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے قرآن مجید کے مفاہیم واضح فرمائے اور صحابہ نے تابعین تک وہ مفاہیم بطریق احسن پہنچائے۔ ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے: ’’رأيت مجاهدا يسأل ابن عباس عن تفسير القرآن، معه ألواحه، فقال ابن عباس: اكتب، حتيٰ سأل عن التفسير كله‘‘ [1] ’’میں نے مجاہد کو دیکھا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے تفسیر کے بارے میں پوچھ رہے تھے، ان کے پاس تختیاں موجود تھیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لکھتے جاؤ، حتیٰ کہ مجاہد نے ان سے مکمل تفسیر پوچھ لی۔‘‘ ابن الندیم نے الفہرست میں ایسے واضح قرائن ذکر کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تابعین اپنے اساتذہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے افادات کو تحریر کیا کرتے تھے اور ان سے آگے تفسیری مجموعے تیار کرتے تھے۔ [2]
Flag Counter