Maktaba Wahhabi

77 - 250
یہ اور اس طرح کی دیگر کئی آیات مبارکہ قرآن مجید میں غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں۔ اگر تفسیر بالمأثور کا منہج اختیار کیا جائے تو آیات میں تدبر کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں، تفسیر بالمأثور پر یہ اعتراض شدومد سے اٹھایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کلام اللہ علوم و معارف کا ایک سمندر ہے، جس میں علم و حکمت کے جواہر پوشیدہ ہیں۔ تفسیر بالمأثور کا منہج اس بحر بیکراں کی وسعتوں کو محدود کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس کی وسعت سے محظوظ اور مستفید ہونے کے صحیح طریقہ کار کا تعین ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ کے ذریعے سے اور صحابہ نے اپنے آثار کے ذریعے سے کلام اللہ کو محصور و مقید نہیں کر دیا، بلکہ اسے سمجھنے کے لیے وہ رخ دیا اور وہ سمت متعین کی ہے جس کے بغیر فہم منتشر ہو سکتا تھا اور کسی ایسی سمت پر جا سکتا تھا جو کہنے والے کا مقصود ہی نہیں۔ احادیث رسول و آثار صحابہ کو اخذ کر لینے سے تدبر فی القرآن کی وہ شاہ کلید انسان کو حاصل ہوتی ہے جو وسعت فکری کے ساتھ ساتھ سلامت فکری کی بھی ضامن ہوتی ہے۔ کتاب اللہ کے فہم کے معاملے میں اگر یہ اصولی منہج نہ اپنایا جائے تو پھر ہر شخص اپنا اپنا ’’تدبر‘‘ خود اپنی ’’تحقیق‘‘ سے سمجھے گا اور اس کے نتیجے میں چاہے پھر وہ جہاں بھی پہنچے وہ صرف اپنی ہی ’’تحقیق‘‘ اور اپنے ہی ’’تدبر‘‘ کو حق ماننے کا پابند ہو گا، نہ صرف یہ بلکہ جس خلوص سے وہ اپنے ’’تدبر‘‘ کو برحق سمجھے، اس ’’خلوص‘‘ کے ساتھ دوسرے کے ’’تدبر‘‘ کو غلط جاننے کا بھی مکلف ٹھہرے گا۔ کیا سب لوگ قرآن مجید کو ایک ہی طرح سمجھ سکتے ہیں؟ کیا انسانی عقول میں اس حد تک اتفاق و اتحاد کی گنجائش ہے کہ قرآن مجید میں سب کو ایک جیسا ہی ’’نظم و تناسب‘‘ نظر آنے لگے؟ سب کا تدبر ایک جیسے ’’فکروفلسفہ‘‘ کا حامل ہو؟ ایک چیز ایک کے لیے جائز ہے تو دوسرے کے لیے ناجائز کیوں؟ آخر اس بات کی ضمانت ہی کیا ہے کہ لازماً فلاں شخص کا تدبر ہی برحق ہے اور دوسرے نے جو سمجھا ہے وہ ضرور ہی غلط ہے؟ معاملہ اگر اس کے برعکس ہو تو؟ اگر ان سب کے لیے تفسیر مرفوع، حدیث اور صحابہ کا فہم قرآن حجت و
Flag Counter