Maktaba Wahhabi

72 - 250
((وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا واحدة، قالوا: ومن هي يا رسول اللّٰه؟ قال: ما أنا عليه وأصحابي)) [1] ’’اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، ایک ملت کے علاوہ سب جہنم میں جائیں گے۔‘‘ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! وہ کون سا فرقہ ہو گا؟ فرمایا: ’’(وہ لوگ جو اس منہج پر ہوں) جس پر آج میں ہوں اور میرے صحابہ۔‘‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں صرف اتنا نہیں فرمایا: ’’ ما أنا عليه‘‘ یعنی وہ راستہ و منہج جس پر میں ہوں، حالانکہ یہیں توقف فرمانا ہوتا تو فرما سکتے تھے، لیکن آپ نے فرمایا: ((ما أنا عليه وأصحابي)) ’’جس راہ پر میں خود ہوں اور میرے صحابہ۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے: (1) صحابہ کا منہج اور صحابہ کا فہم دین، نصوص وحی کو لینے اور سمجھنے کے معاملے میں بعد والوں کے لیے حجت ہے۔ صحابہ کا فہم وحی کے استیعاب کی بابت، پیمانہ و مقیاس کا درجہ رکھتا ہے۔ دین کے وہ مُسلّمات جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں قائم ہو گئے اور حق و باطل کی جو بنیادیں اور نصوص وحی سے استدلال کے جو اصول ان کے دور میں قائم ہو گئے، بعد والے خصوصاً اختلاف و تفرقہ کے ادوار سے وابستہ لوگ انہی بنیادوں، انہی مُسلّمات اور انہی اصولوں کو اپنانے اور انہی پر کاربند رہنے کے پابند ہیں۔ (2) درج بالا آیت مبارکہ اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کا منہج اور ان کا فہم بعد کے ادوار کے لیے باقاعدہ طور پر محفوظ اور باقی رہے گا، بصورت دیگر ان کے ایمان اور انہی کی اتباع کو معیار قرار دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جب ایک چیز اپنا وجود ہی کھو دے تو نجات پانے والوں کی پہچان کیونکر قرار دی جا سکتی ہے؟ جو چیز محفوظ ہی نہیں وہ حجت کیسے ہو سکتی ہے؟ [2]
Flag Counter