Maktaba Wahhabi

64 - 250
اصول دین کے معاملہ میں نصوص قرآنیہ بلکہ نصوص شریعہ کے فہم کی بابت جو کچھ سلف (صحابہ و تابعین) سے منقول ہے، وہی حق ہے اور اس کو ماننا واجب، اس کے ماسوا باطل اور بدعت و ضلالت ہے، اس امت میں جنم لینے والے بہت سے جھگڑے تو یہیں سمٹ جاتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ عليكم بالأمر العتيق‘‘ (پرانے ترین دور والے اسلام ہی کو اپنے اوپر لازم رکھو)۔ دین کے اس پہلو کی بابت عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے: ’’جو شخص اپنے دین کو بحثوں کا موضوع بناتا ہے، وہ اکثر نقل مکانی کرتا ہے۔‘‘ [1] قرآن مجید کی وہ آیات جو فروع دین سے متعلق ہیں، ان میں: (1) تحقیق کی گنجائش ہے۔ (2) راجح و مرجوح کا تعین بھی دلیل کی قوت کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔ (3) لیکن ان میں بھی اختلاف کی صرف اتنی سی گنجائش ہے جتنی سلف (قرون ثلاثہ) میں پائی گئی۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’تمہارا بھٹک جانا بلکہ صحیح معنوں میں بھٹک جانا یہ ہے کہ پہلے جسے تم برائی سمجھتے تھے اب اسے اچھائی سمجھنے لگو اور پہلے جسے اچھائی سمجھتے تھے اسے اب برائی سمجھنے لگو۔ خبردار! خدا کے دین میں نئے نئے رخ اختیار نہ کیا کرو، کیونکہ خدا کا دین ایک متعین چیز ہے۔‘‘ [2] تفسیر کا معاملہ تو بہت نازک ہے، یہاں فروع دین میں بھی استدلال و استخراج اور رائے دہی کے باقاعدہ اصول و ضوابط ہیں۔ تفسیر بالمأثور سے ہٹ کر عقائد و ایمانیات اور ارکان اسلام تک کی تعیین ممکن نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر بالمأثور کے مؤلفین کی تشریحات میں ایمانیات و ارکان میں اتفاق و اتحاد نظر آتا ہے۔ دوسری طرف قدیم معتزلہ اور جدید عقل پرست مفسرین ایمانیات و عقائد میں بھی جمہور امت سے مختلف ہیں۔
Flag Counter