Maktaba Wahhabi

48 - 250
مدون علم تفسیر کا جامع تعارف کروایا گیا ہے۔ اس حوالے سے مولانا تقی عثمانی نے اسی تعریف کو پسند فرمایا ہے۔[1] جبکہ مولانا گوہر رحمان نے بھی اسے منتخب تعریفات میں شامل کیا ہے۔ [2] اس تعریف کی روشنی میں علم تفسیر مندرجہ ذیل اشیاء پر مشتمل ہے: 1۔ الفاظ قرآن کی ادائیگی کا طریقہ یعنی الفاظ قرآن کو کس کس طریقے سے پڑھا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمارے مفسرین بالعموم ہر آیت کے ذیل میں قراءات نقل کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک مستقل علم ’’علم القراءت‘‘ کے نام سے موجود ہے جو کہ تفسیر قرآن کے اس پہلو کی خدمت میں نمایاں اہمیت کا حامل ہے اور ملت اسلامیہ میں تواتر سے چلا آ رہا ہے۔ قراءت کا جاننا علم تفسیر میں اس لیے اہم ہے کہ ان کے ذریعے سے الفاظ کے معانی و مفاہیم پر روشنی پڑتی ہے اور قراءت کے اختلاف سے بعض اوقات معانی کے تعین پر بھی اثر پڑتا ہے۔ 2۔ الفاظ قرآن کے لغوی مدلولات و مفاہیم اس کے لیے عربی لغت سے پوری طرح باخبر ہونا ضروری ہے اور اسی بناء پر تفسیر کی کتابوں میں علماء لغت کے حوالے اور شعری شواہد کا اچھا خاصا ذخیرہ ملتا ہے۔ 3۔ الفاظ کے انفرادی احکام یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ اس کا مادہ کیا ہے؟ یہ موجودہ صورت میں کیسے بنا ہے؟ اس کا وزن کیا ہے؟ اور اس وزن کے معانی و خواص کیا ہیں؟ ان باتوں کے لیے علم صرف کی ضرورت پڑتی ہے۔ 4۔ الفاظ کے ترکیبی احکام یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ طے کرنا کہ وہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر ایک خاص جملے کی شکل میں کیا معنی دے رہا ہے؟ اس کی نحوی ترکیب Grammatical Analysis کیا ہے؟ اس خاص ترکیب کی خصوصیات کیا ہیں؟ اس کی بناوٹ اور تقدیم
Flag Counter