Maktaba Wahhabi

243 - 250
’’علمائے اسلام کا مذہب یہ ہے کہ قرآن جبرئیل فرشتے نے آنحضرت تک پہنچایا ہے، مگر میرا خاص مذہب یہ ہے کہ ملکہ نبوت نے جسے روح الأمین سے تعبیر کیا گیا ہے، آنحضرت کے قلب پر القاء کیا۔‘‘ [1] اسے موصوف نے اپنے اصول تفسیر میں سے ایک اصول شمار کیا ہے، یہاں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اہل ضلال و بدعت کے ہاں ان کے مزعومہ نظریات و عقائد ہی درحقیقت ان کے اصول ہوتے ہیں اور ان کی تفسیری کاوشیں دراصل اپنے فاسد نظریات کو قرآن کا سہارا دینے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جبرئیل امین کے بارے میں قرآن کی تصریحات کے باوجود، سرسید بضد ہیں کہ یہ قرآن سے ثابت نہیں بلکہ علمائے اسلام کا مذہب ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ سرسید ’’علماء کے اس مذہب‘‘ کے بارے اپنی تفسیر میں صراحتاً لکھتے ہیں: ’’ولا شكّ أن هذه ههفوة ليس لها في الإسلام نصيب نعوذ باللّٰه من ذالك‘‘ [2] ’’بلاشبہ یہ (جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے نزول قرآن) ایسی فضول بات ہے، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، نعوذ باللّٰه من ذالك۔‘‘ اس باطل عقیدے کی بنیاد پر سرسید کے نزدیک جبرئیل اور الروح الأمین سے مراد ’’ملکہ نبوت‘‘ ہے۔ نیز نبوت و رسالت کوئی عطیہ خداوندی، انتخاب الٰہی اور وہبی نوعیت کی چیز نہیں، بلکہ عام ملکاتِ انسانی کی طرح ایک فطری اور طبعی ملکہ ہے۔ [3] اس طرز تفسیر کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’دلیل اور مدلول میں غلطی‘‘ قرار دیا ہے۔ دلیل میں غلطی سے مراد یہ ہے کہ نص شرعی اس پر دلالت کناں نہیں ہوتی اور مدلول میں غلطی سے مراد یہ ہے کہ وہ خود ساختہ نظریہ بھی درحقیقت غلط ہوتا ہے۔ باطل نظریات
Flag Counter