Maktaba Wahhabi

210 - 250
’’جو کچھ یہ لوگ تمہیں صحابہ کرام کے حوالے سے بیان کریں وہ حاصل کر لو اور جو محض اپنی رائے سے کہیں اس پر پیشاب کر دو۔‘‘ (3) عروہ بن زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ مَا زَالَ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ , حَتَّى نَشَأَ فِيهِمْ الْمُوَلَّدُونَ(أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ)فأخذوا فِيهِمْ بِالرَّأيِ , فَأَضَلُّوهُمْ‘‘ [1] ’’بنی اسرائیل راہِ اعتدال پر تھے، جب ان میں نومولود لوگ (دوسری امتوں میں سے قیدیوں کے بیٹے) اٹھے، تو انہوں نے رائے پر عمل کرنے کی طرح ڈالی اور اس طرح ان کو گمراہ کر دیا۔‘‘ (4) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے سب لوگوں کے نام تحریری طور پر حکم نامہ صادر فرمایا: ’’ انه لا رأي لأحد مع سنة سنها رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [2] ’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ سنت کی موجودگی میں کسی کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘ (5) بعض کبار تابعین فقہ و افتاء میں درجہ امامت پر پہنچنے کے باوجود تفسیر قرآن میں اظہار رائے سے گریز کرتے تھے، حالانکہ ان کی زبان دانی اور اسالیب عربی سے واقفیت میں بھی کوئی شک نہیں تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے سیدنا عطاء [3]بن ابی رباح اس بارے میں بالخصوص معروف ہیں، فقہ و افتاء میں ان کا ایک مقام ہے۔
Flag Counter