Maktaba Wahhabi

200 - 250
نُصَدِّقَهُمْ ولا نكَذِّبَهُم، فأيُّ تصديقِ لرواياتهم وأقاويلهم أقوى من أن نقرنها بكتاب اللّٰه ، ونضعها منه موضع التفسير أو البيان؟! اللهم غفرًا‘‘ [1] ایسی اسرائیلی روایات جن کی تصدیق و تکذیب کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں، انہیں محض بیان کرنا اور چیز ہے اور انہیں تفسیر قرآن میں ذکر کرنا، آیات کے مفہوم میں ایک قول یا روایت کے طور پر پیش کرنا اور ان کی روشنی میں مبہمات کی تعیین اور مجملات کی تفصیل بیان کرنا بالکل الگ چیز ہے۔ کیونکہ ان اسرائیلی روایات کو کلامِ الٰہی کے ساتھ ساتھ رکھنے سے یہ خیال گزرتا ہے کہ یہ روایات جن کی تصدیق و تکذیب ہمیں معلوم نہیں، کلامِ الٰہی کی وضاحت کر رہی ہیں اور اجمالات کی تفصیل پیش کر رہی ہیں، اللہ اور اس کی کتاب اس سے محفوظ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ہمیں تصدیق و تکذیب نہ کرنے کا حکم دیا ہے، اس سے بڑھ کر تصدیق کیا ہو گی کہ ہم ان روایات کو کتاب اللہ کے ساتھ لے آئیں اور انہیں تفسیر و تشریح کا درجہ دے دیں؟
Flag Counter