Maktaba Wahhabi

190 - 250
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک دن دل ہی دل میں سوچنے لگے: ایک نبی اور ایک قبلے کے ہوتے ہوئے آخر اس امت میں اختلاف کیسے رونما ہوں گے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! قرآن ہمارے درمیان اترا، ہم نے اسے پڑھا اور جس صورتحال میں اترا اسے بھی سمجھا، ہمارے بعد آنے والے کئی لوگ قرآن پڑھیں گے، لیکن اسباب نزول کو نہیں جانتے ہوں گے، لہٰذا وہ اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ جب رائے کا اظہار ہو گا (تو آراء مختلف ہو جائیں گی) اور اختلاف رونما ہو گا، جب اختلاف رونما ہو گا تو وہ ایک دوسرے سے لڑیں گے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ پلائی تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ چلے گئے، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلسل ان کی توجیہہ پر غور کرتے رہے، بالآخر ان کے ذہن میں بات آئی تو انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور فرمایا: وہی کچھ دوبارہ بیان کرو؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ویسے ہی دہرایا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حقیقت پہچان گئے اور انہیں وہ توجیہہ اچھی لگی۔ (2) نافع سے ان کے شاگرد بکر نے پوچھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا خارجیوں کے بارے کیا مؤقف تھا؟ نافع نے جواب دیا: ’’يراهم شرار خلق اللّٰه ، وقال: إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار ، فجعلوها على المؤمنين‘‘ [1] ’’وہ انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے، وہ آیات جو کفار کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، خارجی لوگ ان آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا کرتے تھے۔ (3) امام شاطبی نے اس بارے میں کئی شواہد اور واقعات نقل کیے ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ لوگ کس کس طرح اسبابِ نزول سے عدم واقفیت کی بناء پر آیاتِ قرآنیہ کی غلط تعبیرات کرتے رہے اور اپنے مفاہیم کشید کرتے رہے۔ [2]
Flag Counter