Maktaba Wahhabi

95 - 253
معاف فرما جس دن حساب ہونے لگے‘‘۔ اور کبھی اس دن کی ناکامی اور رسوائی سے بچنے کی دعا کرتے دکھائی دیتے ہیں: (وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ ﴿٨٧﴾ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ﴿٨٨﴾)(سورۃ الشعراء: 87، 88) یعنی: ’’اور مجھے اُس دن رسوا نہ کرنا جس دن لوگوں کو اٹھایا جائے گا جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا‘‘۔ آپ علیہ السلام کی مذکورہ دعاؤں سے معلوم ہوا کہ آخرت کا دن برحق ہے، حساب و کتاب ہو گا جو موحد نہ ہو گا اس کے حق میں اس کے اموال و اولاد سود مند نہ ہوں گے اور اس دن رشتے داری کام آئے گی نہ روپیہ پیسہ، صرف قلب سلیم والا انسان جنت میں ہمیشہ رہے گا اور مشرک ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آخرت کے بارے میں یہ اشد فکر اس بات کی متقاضی ہے کہ آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اس کی زبردست تیاری بھی کرنی چاہیے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۚ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴿٦﴾) (سورۃ الممتحنہ: آیت 6) یعنی: ’’البتہ تحقیق تمہارے لیے ان میں بہترین نمونہ ہے اس آدمی کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور جو پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بلاشبہ بے پرواہ تعریف کیا گیا ہے‘‘۔ گویا کہ سیرت ابراہیم علیہ السلام کے تقاضوں میں آخرت سے غفلت برتنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ کیا اب بھی ہم دنیا میں مگن ہونے والے مسلمان اور آخرت سے غافل رہنے والے مومن بنا پسند کریں گے؟ حقیقت میں آخرت سے غفلت ایمانی کمزوری ہے، کیا ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھول گیا ہے؟
Flag Counter