Maktaba Wahhabi

93 - 253
لگے، انہوں نے کہا: ’’ڈرو نہیں ہمیں تو قوم لوط کی طرف بھیجا گیا ہے‘‘ اس کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دے دی، وہ کہنے لگی ’’ہائے میری کم بختی! میرے ہاں اولاد کیسے ہو سکتی ہے میں خود بوڑھی اور میرے خاوند بہت عمر کے ہیں یہ تو یقیناً بڑی عجیب بات ہے‘‘ فرشتوں نے کہا: ’’کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی ہے؟ اے اس گھر کے مکینو! تم پر اللہ کی رحمت اور برکتیں نازل ہوں، بیشک اللہ تعالیٰ حمدوثناء کا سزاوار اور بڑی شان والا ہے‘‘ جب ابراہیم (علیہ السلام) کا ڈر خوف جاتا رہا اور انہیں بشارت بھی مل چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں گفتگو کرنے لگے یقیناً ابراہیم (علیہ السلام)! اس معاملے (قوم لوط کی ہلاکت) سے اعراض برتیں، کیونکہ آپ کے رب کا حکم آ پہنچا ہے اور اِن پر نہ ٹلنے والا عذاب ضرور آنے والا ہے‘‘۔ اسلام کے عقیدہ توحید کا چوتھا رکن فرشتوں پر ایمان لانا ہے، سیرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلقہ مذکورہ بالا آیات کے حوالہ سے فرشتوں پر ایمان یہ ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی نوری مخلوق مانا جائے اور ایمان یہ ہونا چاہیے کہ یہ نوری مخلوق کھانے پینے اور شادی بیاہ کے محتاج نہیں ہوتے، خواہ وہ انسانی لبادے میں بھی آ جائیں، فرشتوں پر ایمان کے لحاظ سے یہ بات بھی یاد رہے کہ جو انسان دنیا میں رہے بسے کھائے پیئے، نوری نہیں ہو سکتا، لہٰذا کسی نبی کے متعلق یہ کہنا کہ فلاں ہے تو نوری مگر آیا انسانی لبادے میں ہے یہ نہ صرف فرشتوں پر ایمان لانے کے منافی ہے بلکہ ایک بشر کی بشریت سے بھی انکار ہے، اسی طرح فرشتوں پر ایمان کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ اختیارات سے لاچار اللہ کے حکم کے پابند اور تابع ہیں اس کی نافرمانی نہیں کرتے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اصرار کے باوجود انہوں نے کہا: (يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَـٰذَا ۖ إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ
Flag Counter