Maktaba Wahhabi

84 - 253
معاف فرمائے گا‘‘۔ مذکورہ بالا عقیدہ ابراہیم علیہ السلام سے معلوم ہوا کہ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسی کو ایک مانا جائے، اسی کو آسمانوں اور زمین کا مالک مانا جائے، اسی کو خالق اور رازق اور شفا دینے والا سمجھا جائے، اسی کے ہاتھوں میں موت و حیات، عزت و ذلت، فتح و شکست کے اختیارات سمجھے جائیں اور گناہوں کی معافی کے لیے اسی سے لو لگائی جائے، الغرض ذات صفات اور صفات کے تقاضوں میں اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کا کوئی شریک نہ ماننا ہی اللہ پر ایمان کہلاتا ہے جو کہ عقیدہ توحید کا بنیادی جزو اور اصل الایمان ہے۔ چونکہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں، مگر الوہیت میں شرک کرتے تھے، لہٰذا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بھی یہی مؤقف اپنایا کہ ربوبیت کا تقاضا ہے کہ الٰہ بھی اسی اللہ کو مانو جس کی ربوبیت کو برحق مانتے ہوئے غیروں کو عاجز سمجھتے ہو اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے یہی انداز اور اسلوب اپنا کر قوم کو رب کی پہچان کروائی، مگر آج بعض لوگوں نے رب کی ربوبیت میں بھی غیروں کو شریک بنایا اور الوہیت میں بھی، نیز اسماء و صفات میں بھی غیروں کو شریک بنایا یعنی رب کی ذات، صفات اور صفات کے تقاضوں (توحید کی تینوں قسموں) میں مخلوق کو شریک بنا دیا۔ یہودیوں نے عزیر علیہ السلام کو اور عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنایا۔ مگر آج کے مسلمانوں نے پیروں فقیروں، مجاوروں، گدی نشینوں کو رب کا شریک بنا رکھا ہے اور انہیں سے رزق، اولاد، شفا، عزت اور صحت کا سوال کرتے ہیں، انہیں کائنات میں تصرف کرنے والا سمجھا، عالم الغیب سمجھا، فریادیں سننے اور مرادیں پوری کرنے پر قادر سمجھا۔ حتیٰ کہ اللہ کے بزرگ بندوں کو اس کی ذات کا شریک ٹھہرایا۔ اور یہاں تک کہہ دیا: ظاہر دے وچ پیر فریدن تے باطن دے وچ اللہ کسی نے انبیاء علیہم السلام کو ذات باری تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہوئے یوں کہہ
Flag Counter