Maktaba Wahhabi

82 - 253
(إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ﴿٧٢﴾) (سورۃ المائدہ: آیت 72) یعنی: ’’یقین مانو کہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور (روز قیامت) ظالموں کے لیے کوئی بھی مددگار نہ ہو گا‘‘۔ شرک عام ہے اور توحید نایاب ہے، کیونکہ اکثر لوگ توحید و شرک کے معنی و مفہوم سے ہی ناواقف ہیں۔ شیطان جو انسان کا ابدی دشمن ہے، وہ شرک جیسے کبیرہ گناہوں کو مزین کر کے بندوں کے سامنے پیش کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ شرکیہ اعمال کو ہی عبادت سمجھ بیٹھتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللّٰهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ ﴿١٠٦﴾) (سورۃ یوسف: آیت 107) یعنی: ’’اور اکثر لوگ ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود مشرک ہی رہتے ہیں‘‘۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بندوں کی اس اکثریت کو شرک کی دلدل سے بچانے کے لیے توحید کا پرچار کیا جائے اور شرک کے خطرات سے آگاہ کیا جائے تاکہ ان کو بندوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے رب کی بندگی پر لگا دیا جائے۔ اس مشن کے لیے ملت ابراہیم علیہ السلام کی افادیت ناقابل فراموش ہے کیونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جن لوگوں سے واسطہ پڑا وہ آزر سے لے کر قوم قبیلہ اور حاکم وقت تک شرک کی آخری حد تک پہنچ چکے تھے، جس کی تردید میں اور توحید کی ترویج میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جن کاوشوں اور قربانیوں سے تحریک چلائی اور حکمتوں بھرے اندازِ تبلیغ اپنائے، ان کا تقاضا ہے کہ ان کے پرحکمت اسالیب کو آزمایا جائے، خارزار شرک کی ایک ایک جھاڑی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور گلشن توحید میں لالہ و گل اور سروسمن اُگائے جائیں کہ جن کی عطر بیزی سے مشام جان معطر ہو جائے اور غنچہ دل کھل اٹھے۔ ان پاکیزہ تعلیمات، جن کی صاف جھلک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت میں نظر آتی ہے، پر عمل پیرا ہو کر توحید کی ایک عالمگیر تحریک اٹھائی جائے جس کے سامنے وقت
Flag Counter