Maktaba Wahhabi

33 - 253
قَالَ أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ ﴿٧٥﴾ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ ﴿٧٦﴾ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ ﴿٧٧﴾ الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ ﴿٧٨﴾ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ﴿٧٩﴾ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿٨٠﴾ وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ ﴿٨١﴾ وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ ﴿٨٢﴾)(سورۃ الشعراء: 69 تا 82) یعنی: ’’انہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بھی پڑھ کر سناؤ، جب انہوں نے اپنے باپ اور قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں، بس ہم تو ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’کیا جب تم انہیں پکارتے ہو تو وہ سنتے بھی ہیں، یا تمہیں نفع نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: (ہم تو کچھ نہیں جانتے بس) ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے پایا ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’کیا کچھ خبر بھی ہے کہ جنہیں تم اور تمہارے اگلے باپ دادا پوج رہے ہو، وہ سب میرے دشمن ہیں، مگر صرف اللہ تعالیٰ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری کرتا ہے۔ اور وہی ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے شفاء دیتا ہے اور وہی مجھے مارے گا پھر زندہ کرے گا۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ روز قیامت میرے گناہ معاف فرمائے گا۔‘‘ یہ تبلیغ کرتے کرتے آپ علیہ السلام اپنے رب تعالیٰ سے مخاطب ہو کر دعائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں، تاکہ پتہ چلے کہ رب کو ماننے والے اسے کیسے پکارتے ہیں اور جہاں اپنے رب سے دعائیں کیں وہاں والد کی خیرخواہی اور ان سے کئے گئے وعدہ نے تڑپایا، باوجود والد کی سختی اور درشتگی کے اس کی بخشش و ہدایت کے لئے دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿٨٣﴾وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ
Flag Counter