Maktaba Wahhabi

208 - 253
علماء مبلغین اور واعظیم کی خوش قسمتی میں کوئی شک نہیں کیونکہ یہ انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ دینِ اسلام سیکھنے سکھانے اور عمل کرنے کے مواقع ان کے لیے ہمیشہ میسر رہتے ہیں، عوام الناس تک حق بات پہنچانا اگرچہ بہت بھاری ذمہ داری ہے مگر اس مشن میں اجروثواب بھی بے مثال ہے۔ لہٰذا دین کی تبلیغ کو موثر بنانے کے لیے ایک مبلغ کے لیے دعوت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا فرض ہے۔ مثلاً پہلے دین کا علم خود حاصل کرنا، پھر اس پر عمل پیرا ہونا، پھر یہ ممکن طریقہ کے ساتھ اس کی تبلیغ کرنا، پھر اس پر جو مصائب آئیں ان پر صبر کرنا وغیرہ۔ مزید یہ کہ انداز تبلیغ حکیمانہ ہو، اخلاق کریمانہ ہوں، لوگوں کی عقل و فہم کے مطابق بات کی جائے، طریقہ تدریج اختیار کیا جائے، بےجا کفر کے فتوؤں سے پرہیز کیا جائے اور تبلیغ کا آغاز اپنے گھر، پھر قوم اور پھر علاقہ سے کیا جائے وغیرہ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کیوکہ ایک بےباک مبلغِ دین، داعیِ اسلام اور ترجمانِ شریعتِ باری تعالیٰ تھے، ان کا اندازِ تبلیغ اچھوتا، انتہائی سہل، دلنشیں اور دلوں کو موہ لینے والا تھا۔ یقیناً ان کے دعوتِ دین کے اصول اور ان کی تبلیغ کا انداز ایک اچھا اور کامیاب مبلغ بننے کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ علیہ السلام کی سیرت کا یہ پہلو اپنی اعلیٰ خوبیوں کی وجہ سے اس بات کا متقاضی ہے کہ مبلغین اور واعظین انہیں اپنا کر اچھے مبلغ ثابت ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اشاعت دین کی کماحقہ توفیق نصیب فرمائے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دو اور ان پر اللہ کا جو حق ہے وہ انہیں بتاؤ۔ (فَواللّٰهِ لَأَنْ يُهْدى بكَ رَجُلٌ واحِدٌ خَيْرٌ لكَ مِن حُمْرِ النَّعَمِ) اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو بھی آپ کے ہاتھوں ہدایت دے دے تو وہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ [1]
Flag Counter