Maktaba Wahhabi

202 - 253
1۔ (سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا ﴿٤٧﴾) (سورۃ مریم: آیت 47) یعنی: ’’میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا۔ بلاشبہ وہ میرے ساتھ بہت مہربان ہے‘‘۔ 2۔ (وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ ﴿٨٦﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 86) یعنی: ’’میرے باپ کو معاف فرما، بیشک وہ راہ بھولا ہوا تھا‘‘۔ 3۔ (رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾)(سورۃ ابراہیم: آیت 41) یعنی: ’’اے ہمارے پروردگار! مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنوں کو معاف کر دے جس دن حساب کتاب ہو‘‘۔ 4۔ (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ للّٰهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴿١١٤﴾)(سورۃ التوبہ: آیت 114) یعنی: ’’اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا صرف اسی لیے مانگی تھی کہ آپ اس کے ساتھ وعدہ کر چکے تھے۔ پس جب انہیں واضح ہو گیا کہ وہ تو اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے۔ بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) بڑے دردمند اور بردبار تھے‘‘۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ طرزعمل اس بات کا متقاضی ہے کہ والدین کے لیے ان کی زندگی میں ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کی دعائیں کی جائیں اور اگر وہ گمراہ ہوں تو ہدایت کی دعا کی جائے، اور اگر اسلام پر فوت ہو جائیں تو ان کی بخشش کی دعائیں کی جائیں۔ البتہ کفروشرک پر مر جائیں تو دعا ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔
Flag Counter