Maktaba Wahhabi

200 - 253
نظروں سے دور ہو جاؤ‘‘۔ اندازہ لگائیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی کلام میں کتنی نرمی مٹھاس اور خلوص تھا مگر باپ کا اکھڑپن اور ترش کلامی کس حد تک بڑھی ہوئی تھی مگر باپ کی ڈانٹ پر بالکل ملال نہیں کیا۔ ذرا سوچیے کہ آج کتنے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارے بوڑھے تو بالکل پاگل ہیں، سٹھیا گئے ہیں، لہٰذا ذرا سختی نہ دکھائیں تو کام نہیں چلتا۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارا والد تو زیادہ ہی سخت ہے، آخر سختی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، ہم کہاں تک صبر کریں وغیرہ؟ مگر دیکھیں کہ آپ علیہ السلام کا باپ سے مذہبی اور نظریاتی اختلاف ہے اور باپ اکھڑ بھی سب سے بڑھ کر ہے، پھر گھر سے نکلنے کی دھمکی بھی دے رہا ہے، مگر پھر بھی آپ علیہ السلام نے کلام میں نرمی کی انتہا کر دی، آپ علیہ السلام کا باپ سے یہ ناصحانہ طرز عمل اس بات کا بھرپور متقاضی ہے کہ باپ جیسا بھی ہو، گستاخانہ کلمات سے پرہیز کرنا ضروری ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے والدین کے صاحبِ اخلاق ہونے کی قید لگائے بغیر مطلق فرمایا ہے: (وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ) (سورۃ الاسراء: آیت 23) یاد رکھیے کہ اگرچہ والدین کافر ہی کیوں نہ ہوں، دین کے معاملہ میں تو اتباع نہ کی جائے، مگر دنیاوی معاملات میں پھر بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ضروری ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ) (سورۃ لقمان: آیت 15) یعنی: ’’دنیاوی معاملات میں اچھے طریقے سے ان کا ساتھ دو‘‘۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی والدہ کافرہ تھی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا فتویٰ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ [1] والدین کے احترام میں اسلام نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے، دوسروں کے
Flag Counter