Maktaba Wahhabi

185 - 253
نیک ماحول کا انتخاب کر چکنے کے بعد مزید اس کے پرامن اور نیک ہونے کی دعا کرنی چاہیے۔ جیسا کہ آپ علیہ السلام نے جب اپنی اولاد میں سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو بیت اللہ کے پاس بسایا تو اس مبارک جگہ کے لیے یہ دعا کی کہ: (رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا) (سورۃ البقرۃ: آیت 126) یعنی: ’’اے میرے رب اس جگہ کو امن والا شہر بنا‘‘۔ اور جب وہ شہر بن گیا تو دعائیں جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ یا اللہ اب اس شہر کو امن و سکون کا گہوارہ بنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴿٣٥﴾ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ)(سورۃ ابراہیم: آیت 35، 36) یعنی: ’’آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنا، مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی پوجا سے محفوظ فرما، کیونکہ انہوں نے اکثر لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے‘‘۔ یاد رہے امن والا شہر وہی ہو سکتا ہے، جہاں شرک و بدعت نہ ہو، بظاہر کوئی شہر اور ملک جتنا ہی پرامن اور اپنے قوانین کا پابند کیوں نہ ہو، اگر اس میں شرک عام ہو کہ جس سے اللہ رب العزت کی گستاخی اور بغاوت ہوتی ہے تو وہ امن و سلامتی والا نہیں کہلائے گا۔ دیکھیے! سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کے لیے سب سے مقدس اور نیک ماحول کے انتخاب پر ہی قانع نہیں رہے بلکہ مزید اس کے پرامن اور اسلامی ہونے کی دعائیں بھی کرتے رہے، اپنی اولاد کی دینی تربیت کرنے کا خیال کرتے رہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے واقعی اس جگہ کو پرامن بنا کر آپ علیہ السلام کی دعا کو قبولیت سے سرفراز فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۚ)(سورۃ العنکبوت: آیت 67)
Flag Counter