Maktaba Wahhabi

169 - 253
اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً) (سورۃ البقرۃ: آیت 208) یعنی: ’’اے ایمان والو! دین میں مکمل داخل ہو جاؤ‘‘۔ دین کے بعض امور میں اطاعتِ باری تعالیٰ اور بعض میں من مانی کرنا یعنی جو مسئلہ اچھا لگا، جہاں مفاد معلوم ہوا، اسے قبول کر لینا اور جو طبعِ آزاد پر گراں گزرا اسے دین کے تکلفات میں سے سمجھنا اور اس ے روگردانی کر لینا، اسے استقامت فی الدین ہرگز نہیں کہتے، آج بہت سے لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو دین کے احکام کو جبر سمجھتے ہیں، جہاد کا حکم ان پر گراں گزرتا ہے، شرعی سزاؤں کو ظلم سمجھتے ہیں، پردہ ان کے نزدیک ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، روزہ عرب فاقہ کشی کی یاد ہے، حج پیسے کا ضاع ہے، زکوۃ ایک ٹیکس ہے، نماز بہت ہی بھاری حکم ہے، سچ فرمایا اللہ پاک نے: (وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ ﴿٤٨﴾) (سورۃ المرسلات: آیت 48) یعنی: ’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تو وہ نہیں کرتے‘‘۔ الغرض ان کے نزدیک دینِ پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتا، اس کا التزام ان کے لئے سب سے بڑی آفت اور قیامت ہے، ایسے لوگ نہ تو دیندار ہیں اور نہ ہی دین کی اہمیت سے واقف، ایسے نام نہاد مسلمانوں کو دین کے پابند یا راسخ العقیدہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا، ایسے من مانی کرنے والے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٨٥﴾) (سورۃ البقرۃ: آیت 85) یعنی: ’’کیا کتاب کے بعض حصے پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو، ایسا کرنے والوں کی سزا تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں سخت عذاب سے دوچار ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں، اللہ ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے‘‘۔
Flag Counter