Maktaba Wahhabi

156 - 253
(وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَـٰنِ ۚ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ ﴿٣٠﴾) (سورۃ الرعد: آیت 30) اسی طرح ان صفات کی کیفیت میں پڑنا گمراہی ہے۔ ان کی تاویل کرنا جہالت ہے اور ان کی تمثیل بیان کرنا شرک ہے۔ تاویل لوگ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سمع و بصر اور علم و حکمت کو لوگوں کی سمع و بصر، علم و حکمت وغیرہ کی مثل سمجھ بیٹھے تھے، اس لیے ان کی تاویل کی، تاکہ اس کی مثل نہ ہو جائے۔ حالانکہ بغیر تاویل کے اس کی صفات کا مسئلہ حل شدہ تھا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١١﴾) (سورۃ الشوریٰ: آیت 11) یعنی: ’’اس کی مثال کا کوئی بھی نہیں اور وہ سمیع (اور) بصیر ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ کہیں یہ سوچ کر اللہ کی صفت سمع اور بصر کا انکار نہ کر بیٹھیں کہ انسان بھی سمع اور بصر رکھتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو سمیع و بصیر مان لیا تو وہ مخلوق کے مشابہ ہو جائے گا۔ فرمایا کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ السمیع و البصیر ہے۔ یعنی اللہ کا سننا دیکھنا مخلوق کے مشابہ نہیں ہے۔ غور فرمائیے کہ ایسا پروردگار کس کام کا جو نہ سنتا ہو نہ دیکھتا ہو اور نہ علم و حکمت رکھتا ہو؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا انکار محض مخلوق کی مشابہت سے بچنے کی غرض سے کر دینا جائز نہیں۔ اور نہ ہی ان کی مثال دینی چاہیے۔ مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دین میں غلو کرنے والے لوگ اولیاء اللہ کے سننے جاننے کو اللہ کے سننے جاننے اور دیکھنے وغیرہ کے مشابہ قرار دے کر شرک میں داخل ہو گئے۔ بعض نے تو ان صفات کی تاویل کی کہ اللہ تعالیٰ کے رحم سے مراد ارادہ خیر بالانسان ہے اور اللہ کے ہاتھوں سے مراد اس کا قبضہ قدرت ہے۔ تو یہ تاویل بھی غلط ہے۔ حالانکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پاؤں آنکھوں اور چہرے کا ثبوت قرآن و حدیث میں آیا ہے۔ بغیر کسی تاویل اور بغیر کسی تحویل اور بغیر کسی تعطیل اور بغیر کسی تمثیل اور بغیر کسی تکییف کے كما يليق بشانه و جلاله و عظمته ان پر ایمان لانا ضروری ہے، جو کہ
Flag Counter