Maktaba Wahhabi

137 - 253
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پاکیزہ سیرت میں سے اس عظیم واقعہ کو ایک کہانی اور دل بہلانے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے بلکہ اس میں توحید کے خزانے موجود ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ جھوٹے معبود دوسروں کی تو کیا وہ اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے۔ جس طرح اس قوم کے معبود مدد نہ کر سکے۔ مگر پھر بھی مشرک کو سمجھ نہیں آتی۔ قوم نے یہ سبق نہ لیا کہ ہمارے خدا تو اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے، ہماری کیسے کر سکتے ہیں۔ بلکہ حد یہ ہوئی کہ کہنے لگے ہو سکتا ہے تو اپنے معبودوں کی مدد کریں، بھلا وہ معبود کیسا جو اپنے مریدوں کی مدد کا محتاج ہو؟ پھر قوم نے یہ بھی دیکھا کہ جس رب کے بارے میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام رب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس نے اپنے بندے کی کس طرح مدد کی، معلوم ہوا کہ مافوق الاسباب صرف اللہ تعالیٰ ہی مدد فرما سکتا ہے۔ مخلوق میں سے کوئی بھی کرنی والا پہنچی ہوئی سرکار مدد نہیں کر سکتی بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مدد کے محتاج ہیں۔ یہی حال آج کے مشرک کا ہے یہ اپنے حضرت صاحب کے لیے پہرے کا انتظام کرتا ہے، پیر کا رزق اس کے گھر سے جاتا ہے، خدمت مدارت یہ کرتا پھرتا ہے اور مدد دینے والا اس کو سمجھتا ہے اور اپنے حضرت صاحب کے گستاخ (دراصل توحید کے علمبردار) سے انتقال لینے کا ٹھیکے دار یہ بنا ہوا ہے۔ حضرت صاحب خود کیوں نہیں نمٹ لیتے؟ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ: (وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ﴿١٩٧﴾) (سورۃ الاعراف: آیت 197) یعنی: ’’اور جن کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنی مدد کر سکتے ہیں‘‘۔ اور مومن اپنے پختہ عقیدے کا یوں اظہار کرتا ہے: (إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾) (سورۃ الفاتحہ: آیت 5) یعنی: ’’یا اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ اور یہی عقیدہ توحید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی رضی اللہ عنہ کو سکھایا:
Flag Counter