Maktaba Wahhabi

134 - 253
وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ ﴿٨٢﴾) (سورۃ الشعراء: آیت 70 تا 82) یعنی: ’’سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم سے پوچھا: ’’تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ہم ان کے مجاور بنے ہوئے ہیں‘‘ آپ (علیہ السلام) نے پوچھا: ’’کیا جب تم انہیں پکارتے ہو وہ تمہاری پکار سنتے ہیں یا تمہیں کوئی نفع نقصان دے سکتے ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’بس ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایسے ہی کرتے پایا ہے‘‘ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: ’’کچھ خبر بھی ہے؟‘‘ جنہیں تم اور تمہارے پہلے باپ دادا پوجتے ہو، وہ سب میرے دشمن ہیں، مگر صرف اللہ تعالیٰ، جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے، جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے، وہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے شفاء عطاء فرماتا ہے اور جس سے میری امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ روز جزاء میرے گناہوں کو بخش دے گا‘‘۔ اسی طرح آپ علیہ السلام نے باپ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے ابا جی! جو نفع نقصان دینے یا کچھ سننے جاننے پر قادر نہیں، آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ فرمایا: (إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا ﴿٤٢﴾) (سورۃ مریم: آیت 42) یعنی: ’’اے ابا جان تو ان کی عبادت کیوں کرتا ہے جو نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟‘‘ لہٰذا سیرت ابراہیم علیہ السلام توحید میں ٹھوس ہونے کے لحاظ سے اس بات کی متقاضی ہے کہ عقیدہ توحید اس طرح رکھا جائے کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی نفع نقصان کا مالک نہیں اور عبادت صرف اللہ کی کرنی چاہیے، جس کے ہاتھ میں نفع و نقصان کے تمام اختیارات ہیں اور قرآن کریم جا بجا یہی فرما رہا ہے کہ اللہ کے علاوہ معبودانِ باطلہ کسی کے نفع کی
Flag Counter