Maktaba Wahhabi

119 - 253
آج بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے دربار سے ناامید ہو کر غیروں کے درباروں سے لو لگاتے ہیں، جبکہ ابراہیم علیہ السلام بڑھاپے کو پہنچ جانے کے باوجود ناامید نہیں ہوئے، سیدنا اسحاق علیہ السلام کی بشارت کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ موجود ہیں: (إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ ﴿٥٣﴾ قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَىٰ أَن مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ ﴿٥٤﴾ قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ ﴿٥٥﴾ قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ ﴿٥٦﴾) (سورۃ الحجر: آیت 53 تا 56) یعنی: ’’ہم آپ کو صاحب علم فرزند کی بشارت دیتے ہیں آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا اس بڑھاپے کے آ جانے کے بعد تم مجھے خوشخبری دیتے ہو یہ خوشخبری تم کیسے دے رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری سنا رہے ہیں آپ ناامید لوگوں میں سے نہ ہو جائیں آپ نے فرمایا کہ اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ اور بھٹکے ہوئے لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں‘‘۔ اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی طرف سے دی ہوئی اولاد پر ہمہ قسم حمدوثناء کے کلمے اور تحمید و تعریف کے نغمے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے الاپتے رہے اور صرف اسی کے حجور گلہائے عقیدت اور نذرانے پیش کرتے رہے اور آئندہ اولاد کی زندگی کی ہر خیر اللہ ہی سے مانگتے رہے اور ان کی نیکی کا سوال اور ہر طرح کے شر اور گناہ سے بچنے کی دعا بھی اللہ تعالیٰ ہی سے کرتے رہے، قرآن ان الفاظ کے ساتھ شاہد ہے: (الْحَمْدُ للّٰهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ ﴿٣٩﴾رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ﴿٤٠﴾) (سورۃ ابراہیم: آیت 39، 40) یعنی: ’’تمام تعریفیں اللہ کی ذات کے لیے ہیں جس نے بڑھاپے کے باوجود مجھے اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) بیٹے نصیب فرمائے، بیشک میرا رب تو دعاؤں کو ضرور سننے والا ہے۔ میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنائے رکھنا اور میری دعا قبول فرما‘‘۔
Flag Counter