Maktaba Wahhabi

103 - 253
بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٨١﴾) (سورۃ الانعام: آیت 80 تا 81) یعنی: ’’ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کی قوم جھگڑا کرنے لگی تو انہوں نے کہا: کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہ مجھے ہدایت دے چکا ہے، میں ان سے نہیں ڈرتا جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو ہاں اگر میرا پروردگار چاہے (تو وہ اور بات ہے) میرے پروردگار کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ میں تمہارے شریکوں سے کیسے ڈروں، جب کہ تم بلا دلیل لوگوں کو اللہ کا شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے، اگر جانتے ہو تو، دو فریقوں (تمہارے اور ہمارے) میں سے کون امن کا زیادہ مستحق ہے؟‘‘ معلوم ہوا کہ مشرک رب کی بجائے اپنے شریکوں کا خوف دل میں زیادہ رکھتا ہے، اپنے پیرومرشد کے رنج و غصہ سے بچتا ہے، اس کی ناراضگی کو اپنے لیے دنیا و آخرت کی ناکامی سمجھتا ہے، ان سے ہر وقت ڈرتا ہے کہ کہیں حضرت صاحب ناراض ہو گئے تو میرے مال و جان کی خیر نہیں، میری اولاد میرا رزق مجھ سے چھن جائے گا، جبکہ موحد آدمی ان سب چیزوں کو شرک سمجھتے ہوئے صرف رب کا خوف دل میں رکھتا ہے، اسی لیے وہ بڑی بڑی طاغوتی قوتوں سے ٹکرا جاتا ہے اور بڑی بڑی سپر پاوروں کو جوتے کی نوک سے ٹھوکر لگانا جانتا ہے، کیونکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو مقتدر اعلیٰ سمجھتا ہے دنیا کی کسی ہستی کو خیروشر کا خالق نہیں سمجھتا۔ یہی ایمانی غیرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے سینے میں موجود تھی تو باطل کے ایوانوں میں اکیلے تہلکا مچا دیتے تھے اور ہر پیغمبر اور مومن کا یہی شیوہ ہے کہ صرف رب کا خوف اور باقی سب سے بے خوف اور یہی ایمان کا تقاضا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں یہ مضمون کثرت سے بیان ہوا ہے، دو مقامات پیش خدمت ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللّٰهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللّٰهَ
Flag Counter