Maktaba Wahhabi

203 - 276
جو مقدار ایک علاقے کے لیے کافی ہے وہ دوسرے علاقے کے لحاظ سے ناکافی ہو سکتی ہے،اسی طرح جو مقدار دس سال قبل کافی سمجھی جاتی تھی وہ آج کے دور میں ناکافی ہو سکتی ہے اور جو چیز ایک شخص کے لیے کافی ہو وہ دوسرے شخص کے اہل و عیال اور خرچہ وغیرہ زیادہ ہونے کی و جہ سے اس کے لیے ناکافی ہو سکتی ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ضروریات میں بیمار کا علاج،کنوارے کی شادی اور حسب ضرورت علمی کتابیں بھی شامل ہیں۔ زکاۃ حاصل کرنے والے فقیروں اور مسکینوں کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ مسلمان ہوں اور بنی ہاشم اور ان کے آزاد کردہ غلاموں میں سے نہ ہوں اور نہ ان لوگوں میں سے ہوں جن کا خرچ زکاۃ دینے والے پر ہو،جیسے والدین،اولاد،بیویاں وغیرہ۔ اور نہ ہی تندرست باروزگار لوگوں میں سے ہوں،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ وَلَا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ)) ’’زکاۃ میں مال دار اور طاقت ور کمانے والے کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘[1] ( عاملین زکاۃ: یہ وہ لوگ ہیں جنھیں حاکم یا اس کا نائب زکاۃ وصول کرنے،اس کی حفاظت اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپتا ہے،جس میں زکاۃ وصول کرنے،اس کی رکھوالی کرنے،اس کا حساب کتاب کرنے،اس کی نقل حرکت اور تقسیم کرنے والے سبھی لوگ شامل ہیں۔ عاملین زکاۃ اگر مسلمان،عاقل،امانتدار اور فرض شناس ہوں تو چاہے وہ صاحب حیثیت ہوں،ان کو کام کے مطابق زکاۃ کی رقم سے اجرت دی جا سکتی ہے،لیکن اگر وہ بنی ہاشم میں سے ہیں تو پھر اسے زکاۃ دینا جائز نہیں،جیسا کہ مطلب بن ربیعہ کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter