Maktaba Wahhabi

37 - 276
﴿أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ﴾ ’’کیا تم اس ذات سے جو آسمان میں ہے بے خوف و خطر ہو گئے ہو کہ وہ تمھیں زمین میں دھنسا دے۔‘‘[1] اور فِی السَّمَاء ’’آسمان میں‘‘ سے مراد عَلَی السَّمَاء ’’آسمان پر‘‘ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آیت میں مذکور مَنْ ’’وہ ذات‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔ ٭ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت دینے ہی سے ایمان صحیح ثابت ہوتا ہے۔ ٭ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے،سچے ایمان کی نشانی ہے اور یہ عقیدہ اپنانا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ ٭ اس سے اس شخص کا یہ مہمل عقیدہ مسترد ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر ہر جگہ موجود ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے نہیں بلکہ علم کے لحاظ سے ہمارے ساتھ ہے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لونڈی کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا۔ اور لونڈی کا ایمان بھی یہی تھا۔ اس سے اُن صوفیوں کا رد ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ آپ علم غیب جانتے تھے۔ تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان ایمان کا چھٹا رکن یہ ہے کہ تقدیر کی ہر اچھائی اور برائی پر ایمان لایا جائے،اس کی تشریح کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (اربعین) میں فرمایا:
Flag Counter