Maktaba Wahhabi

110 - 276
’’جس نے میت کو غسل دیا وہ غسل کرے اور جس نے اسے اٹھایا وہ وضو کرے۔‘‘[1] ( احرام کے لیے غسل : جمہور کے نزدیک حج اور عمرہ کرنے والے کے لیے احرام سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔ ( مکے میں داخلے سے قبل غسل : مکہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔ آخری دونوں موقعوں پر غسل کرنے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔ غسل سے متعلقہ مسائل ( حیض اور جنابت،جمعہ اور عید یا جنابت اور جمعہ سے ایک غسل کافی ہوجائے گا،بشرطیکہ غسل کرتے وقت دونوں کی اکٹھی نیت کرے۔ کیونکہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى)) ’’ہر آدمی کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘[2] ( اگر آدمی جنابت کا غسل کرکے وضو نہ کرے تو یہ غسل وضو کے قائم مقام ہو گا۔ امام ابوبکر العربی فرماتے ہیں: اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں کہ وضو،غسل میں آجاتا ہے اور جنابت سے طہارت کی نیت کرنے سے حالت حدث ختم ہوجاتا ہے،یعنی غسل جنابت وضو کی جگہ کفایت کرجائے گاکیونکہ اس میں پہلے وضو کیا جاتا ہے۔ ( اگر آدمی(مرد) کسی کا ستر دیکھنے سے بچ سکے اور اپنے ستر کو لوگوں کی نظر سے محفوظ رکھ سکے تو اجتماعی حمام میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ [3]
Flag Counter