اپنی بیٹی امیمہ کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے:
لَوْلاَ أُمَیْمَۃُ لَمْ أَجْزَعْ مِنَ الْعَدْمِ وَلَمْ أَجُبْ فِيْ الِّلیَالِيْ حِنْدَسِ الظُّلَمِ
وَزَادَنِيْ رَغْبَۃً فِيْ الْعَیْشِ مَعْرِفَتِيْ ذُلَّ الْیَتِیْمَۃِ یَجْفُوْہَا ذَوُوُ الرَّحِمِ
إِذَا تَذَکَّرْتُ بِنْتِيْ حِیْنَ تَنْدُبُنِيْ فَاضَتْ لِعِبْرَۃِ بِنْتِيْ عَبْرَتِیْ بِدَمِ
أُحَاذِرُ الْفَقْرَ یَوْمًا أَنْ یُلِمَّ بِہَا فَیَہْتِکُ السَتْرَ عَنْ لَحْمٍ عَلَی وَضَمِ
وَإِنَّہَا بَعْدَ مَوْتِيْ لاَ تُفِیْدَ أَبًا أُخْرَی اللَّیَالِيْ إِذَا غُیِّبْتُ فِيْ الرَّجْمِ
مَا أَنْسَ لاَ أَنْسَ مِنْہَا إِذْ تُوَدِّعُنِيْ بِدَمْعِ عَیْنٍ عَلَی الْخَدَّیْنِ مُنْسَجِمِ
لاَ تَبْرَحَنَّ وَإِنْ مِتْنَا فَإِنَّ لَنَا رَبًا تَکَفَّلَ بِالْأَرْزَاقِ فِيْ الْقِدَمِ
تَہْوَی حَیَاتِيْ وَأَہْوَی مَوْتَہَا شَفَقًا الْمَوْتُ أَکْرَمُ نَزَالٍ عَلَی الْحُرَمِ
اَخْشَی فَظَاظَۃَ عَمٍّ أَوْ جَفَائَ أَخٍ وَکُنْتُ أَخْشَی عَلَیْہَا مِنْ أَذَی الْکَلِمِ‘ [1]
’’اگر میری بیٹی امیمہ نہ ہوتی تو میں مفلسی سے نہ گھبراتا اور شدید تاریکی والی راتوں میں سفر کی صعوبتیں برداشت نہ کرتا۔
اور میرے دل میں زندگی کی رغبت اس بات نے زیادہ کر دی ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ یتیم لڑکی کو ذلیل سمجھا جاتا ہے،اور قریبی رشتے دار اس پر ظلم کرتے ہیں۔
میں اپنی موت پر اپنی بیٹی کے آنسوؤں کا تصور کر کے خون کے آنسو روتا ہوں۔
میں ڈرتا ہوں کہ کسی دن تنگ دستی اس کو آ گھیرے،اور وہ اس بے وقعت اور کمزور بچی کی پردہ دری کر دے(یعنی اس سے پردے کو ہٹا دے)۔جب مجھے قبر میں دفنا دیا جائے گا،تو وہ میری موت کے بعد تا ابد باپ سے فائدہ حاصل نہ کر پائے گی۔
|