Maktaba Wahhabi

129 - 288
وَأَقْبَلَتْ عَلِيَّ فَوَعْظَتْنِيْ مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً،ثُمَّ قَالَتْ:’’أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ اللّٰه سَاقَکَ حَتَّی جَعَلَکَ فِيْ أَہْلِ بَیْتِ نَبِیِّہِ۔ذَہَبَتْ وَاللّٰهِ ! مَیْمُوْنَۃُ وَرُمِيَ بِرَسْنِکَ عَلَی غَارِبِکَ۔أَمَا إِنَّہَا کَانَتْ مِنْ أَتْقَانَا لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَأَوْصَلِنَا لِلرَّحِمِ۔‘‘))[1] ’’عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکہ سے واپس آتے ہوئے میں اور ان کا بھانجا طلحہ بن عبید اللہ کا بیٹا راستے میں ان سے ملے،اور وہ ان کا بھانجا تھا،اور[اس سے پہلے]انہیں یہ اطلاع مل چکی تھی کہ ہم نے مدینہ کے ایک باغ میں داخل ہو کر وہاں سے کچھ کھایا ہے۔انہوں نے اپنے بھانجے کی خوب ڈانٹ ڈپٹ کی۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئیں،اور مجھے موثر نصیحت کی،پھر انہوں نے فرمایا:’’کیا تجھے علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں شامل فرما دیا ہے ؟ واللہ ! میمونہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد تجھے کوئی پوچھنے والا نہیں رہا۔یقینا وہ ہم میں سے سب سے زیادہ تقویٰ والی اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والی عورتوں میں سے تھیں۔‘‘ قصے سے مستفاد باتیں: 1 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے ڈانٹ ڈپٹ اور جھاڑ کی ابتدا اپنے بھانجے سے کی۔حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے کی باز پرس بعد میں کی۔ان کا یہ طرز عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق تھا کہ انہوں نے بھی دعوت توحید کی ابتدا اپنے اقارب سے کی۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں یہ ترتیب حکم ربانی کے مطابق تھی۔[2]
Flag Counter