Maktaba Wahhabi

115 - 288
رہا ہوں،اصل بات یہ ہے کہ میرے پاس مال جمع ہو چکا ہے،اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس کا کیا کروں۔‘‘ انہوں نے[جواب میں]کہا:’’اس میں آپ کے لیے پریشان ہونے کی تو کوئی بات نہیں۔اپنی قوم کے لوگوں کو بلائیے،اور اس[مال]کو ان میں تقسیم کر دیجیے۔‘‘ انہوں نے کہا:’’اے غلام ! میری قوم کے لوگوں کو بلائو۔‘‘ [سعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:]’’میں نے خازن سے پوچھا:’’انہوں نے کتنا مال تقسیم کیا؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’چار لاکھ۔‘‘ قصے سے مستفاد باتیں: 1 حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں مال کا جمع ہونا باعث مسرت وشادمانی نہ تھا،بلکہ باعث تشویش تھا،کیونکہ ان کی نظر مال کے سبب پیدا ہونے والے فتنوں پر تھی۔ 2 کتنی خوش نصیب تھی وہ مسلمان بیوی جو اپنے شوہر کوانہی کے قرابت داروں میں مال خرچ کرنے کی تلقین کرتی ہیں ! اور کتنا بخت آور ہے وہ مرد جس کو اللہ تعالیٰ نے ایسی بیوی عطا فرمائی۔ اے ہمارے رب ! ہمیں اور ہماری بیویوں کو بھی انہی پاک باز لوگوں کے نقش قدم پر گامزن فرما دے۔إِنَّکَ سَمِیْعٌ مُّجِیْبٌ۔ 3 اللہ تعالیٰ نے اس سعادت مند بیوی کو کیسا عمدہ مشورہ دینے کی توفیق عطا فرمائی،اور پھر ان کے مشورے میں کس قدر تاثیر پیدا فرمائی کہ ان کی تجویز پر ان کے شوہر محترم نے چار لاکھ خرچ کر دئیے۔ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ وَاللّٰهُ
Flag Counter