Maktaba Wahhabi

150 - 288
’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا:’’ایک عورت مردوں والی جوتی پہنتی ہے۔‘‘ انہوں نے فرمایا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت پر لعنت فرمائی ہے جو لباس اور وضع قطع میں مردوں سے مشابہت کرتی ہے۔‘‘ قصے سے مستفاد باتیں: 1 اہل علم کے سامنے مصلحت کی غرض سے کسی کی خامی کا ذکر کرنا غیبت کے دائرے میں داخل نہیں۔ 2 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے احتساب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی سے استدلال کیا۔ 3 مردوں سے لباس اور وضع قطع میں عورت کا مشابہت اختیار کرنا کس قدر سنگین جرم ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت پر لعنت کی ہے۔ بعض مسلمان عورتیں مردوں والی پتلونیں،جیکٹیں،شرٹیں اور جوتیاں پہننے،اور مردوں جیسی اپنے بالوں کی خراش تراش بنانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا مستحق بننا باعث فخر نہیں،بلکہ باعث شرم اور افسوس ہے۔ {فَمَا لِہٰؤُلاَئِ الْقَوْمِ لاَ یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا} [1] علاوہ ازیں بہت سے دین سے تعلق والے گھرانوں میں بچیوں کے لباس اور بالوں کی خراش تراش میں لڑکوں سے مشابہت عام ہے۔کیا بیٹیوں سے محبت کے لیے یہی معیار باقی رہ گیا ہے کہ انہیں ایسے طرز زندگی کا عادی بنایا جائے کہ وہ بڑی ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کی مستحق ٹھہریں ؟ ان کی کم سنی کا عذر درست نہیں۔ہم بحیثیت والدین اس بات کے پابند ہیں کہ اپنی گوشہ ہائے جگر کی تربیت شروع ہی سے اسلامی شریعت کے مطابق کریں،وگرنہ بعد میں نہ تو عام طور پر ان پر کوئی نصیحت کارگر ہوتی ہے،اور نہ افسوس وندامت ہمارے کسی کام آ سکیں گے۔
Flag Counter