Maktaba Wahhabi

164 - 288
باتیں اپنے نفس کی پاکی بیان کرنے کے لیے نہیں،بلکہ اپنی والدہ کی تسلی کے لیے کررہا ہوں،تاکہ وہ مطمئن ہو جائیں۔‘‘ ان کی والدہ نے فرمایا:’’اگر تو مجھ سے پہلے[دنیا سے]روانہ ہو گیا تو مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ مجھے تمہارے بارے میں تسلی اور اطمینان ہو گا،اور اگر میں تم سے پہلے[اس دنیا سے]کوچ کر گئی تو میرے دل میں یہ تمنا رہے گی کہ میں[دنیا سے روانہ ہونے سے پہلے]تمہارے انجام کو دیکھ لیتی۔‘‘ انہوں نے کہا:’’اے میری ماں ! اللہ تعالیٰ آپ کو اچھی جزا عطا فرمائے ! آپ میرے لیے کبھی بھی دعا کو نہ چھوڑنا۔‘‘ انہوں نے فرمایا:’’میں کبھی بھی اس[تیرے لیے دعا]کو نہ چھوڑوں گی۔جو باطل پر قتل کیا گیا[میرا اس سے تو کوئی تعلق نہیں،لیکن]یقینا تو،تو حق پر قتل کیا جا رہا ہے۔‘‘ پھر انہوں نے کہا:’’اے میرے اللہ ! طویل رات میں لمبے قیام پر،طویل گریہ زاری پر،مدینہ اور مکہ کی دوپہر کی شدید گرمی کی[روزوں کی وجہ سے]پیاس پر،اپنے باپ اور میرے ساتھ اس کے حسن سلوک پر رحم فرما! اے میرے اللہ ! میں نے اس کو،آپ کے اس کے بارے میں فیصلے کے سپرد کر دیا ہے،اورآپ کے فیصلے پر راضی ہوں،پس آپ مجھے عبداللہ کے بارے میں صبر اور شکر کرنے والوں کا ثواب عطا فرمانا۔‘‘ قصے سے مستفاد باتیں: 1 حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی نگاہ میں حق پر ثابت قدم رہنے کی اہمیت کس قدر زیادہ تھی۔ان کے نزدیک غلط بات کو تسلیم کرنے کی بجائے لخت جگر کا راہ حق میں قربان ہونا،اور ان کا اس عظیم قربانی پر صبر کرنا قابل قبول اور زیادہ پسندیدہ تھا۔ 2 حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بے مثال جرات وشجاعت،اور غیر معمولی صراحت و
Flag Counter