Maktaba Wahhabi

153 - 288
دلیل: امام مسلم رحمہ اللہ نے اسود رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ: ((دَخَلَ شَبَابٌ مِنْ قُرَیْشٍ عَلَی عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا وَہِيَ بِمِنَی وَہُمْ یَضْحَکُوْنَ،فَقَالَتْ:’’مَا یُضْحِکُکُمْ؟‘‘ قَالُوْا:’’فُلاَنٌ خَرَّ عَلَی طُنْبٍ فُسْطَاطٍ،فَکَادَتْ عُنُقُہُ أَوْ عَیْنُہُ أَنْ تَذْہَبَ۔‘‘ فَقَالَتْ:’’لاَ تَضْحَکُوْا فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ:’’مَا مِنْ مُسْلِمْ یُشَاکُ شَوْکَۃً فَمَا فَوْقَہَا إِلاَّ کُتِبَتْ لَہُ بِہَا دَرَجَۃٌ،وَمُحَیِتْ عَنْہُ بِہَا خَطِیْئَۃٌ۔‘‘))[1] قریش کے[چند]نوجوان[مقام]منیٰ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آئے،اور وہ ہنس رہے تھے۔انہوں نے دریافت کیا:’’کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا:’’فلاں شخص خیمے کی رسی کے ساتھ[ٹھوکر کھا کر]گر گیا ہے۔اور قریب تھا کہ اسکی گردن ٹوٹ جاتی یا آنکھ ضائع ہو جاتی۔‘‘ انہوں نے فرمایا:مت ہنسو ! کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’کسی بھی مسلمان کو کانٹا یا اس سے بڑی چیز نہیں چبھتی،مگر اس کے سبب اس کے لیے ایک درجہ تحریر کیا جاتا ہے،اور ایک گناہ مٹایا جاتا ہے۔‘‘ قصے سے مستفاد باتیں: 1 کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت پر خوش ہو۔امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے:
Flag Counter