Maktaba Wahhabi

67 - 288
’’جب ہم نماز ظہر یا عصر کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے،اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کے لیے بلا چکے تھے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے،آپ کی صاحبزادی کی بیٹی امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہ آپ کی گردن پر[سوار]تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جائے نماز پر کھڑے ہوئے،اور ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے،اور وہ اپنی جگہ ہی پر رہی[یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن ہی پر سوار رہی۔‘‘ انہوں[راوی]نے بیان کیا:’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی،اور ہم نے[بھی]اللہ اکبر کہا۔ انہوں نے کہا:’’یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کا ارادہ کیا تو اس کو تھاما اور[زمین پر]رکھ دیا،پھر آپ نے رکوع وسجود کیا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے فارغ ہوئے تو اس کو اٹھایا اور اس کی جگہ[یعنی اپنی گردن مبارک]پر بٹھا دیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہونے تک اس[اپنی نواسی]کے ساتھ یہی طرز عمل اختیار کیا۔‘‘ اللہ اکبر ! میری جاں اور میرے ماں باپ حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہو جائیں۔اپنی بیٹی کی بیٹی سے ان کی شفقت وعنایت،الفت،پیار اور تعلق کس قدر گہرا اور شدید تھا۔صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ۔ شاعر اسحاق بن خلف کے بیٹی کے متعلق جذبات: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے علاوہ دیگر لوگوں کی زندگیوں میں بھی بیٹیوں کے ساتھ تعلق،لگاؤ اور الفت ومودّت کے دلائل وشواہد موجود ہیں،اگرچہ وہ اخلاص وشفقت کے اس کمال کو تو نہیں پہنچ سکتے۔مثال کے طور پر ایک شاعر اسحاق بن خلف نے
Flag Counter