Maktaba Wahhabi

69 - 288
میں اس کی وہ حالت نہیں بھولتا اور نہ ہی بھولوں گا جب کہ وہ دونوں رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ مجھے الوداع کرتی ہے۔ تم باقی رہو،اگرچہ ہم مر جائیں،کیونکہ یقینا ہمارا رب ہے جس نے ازل ہی سے ارزاق کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ وہ میری زندگی چاہتی ہے اور میں اس پر شفقت کے سبب اس کی موت کی خواہش کرتا ہوں،اور موت عورتوں کے لیے سب سے زیادہ عزت والا مہمان ہے۔[1] میں اس پر چچا کی سخت دلی اور بھائی کے ظلم سے ڈرتا ہوں،اور میری تو اس کے متعلق کیفیت یہ تھی کہ میں صرف بات کے ذریعے پہنچنے والی اذیت کی بنا پر اس پر ترس کھاتا تھا۔‘‘ موجودہ دور کے بعض باپوں کا بیٹیوں سے شدید تعلق: کوئی یہ نہ کہے کہ بیٹیوں سے تعلق اور لگاؤ کی باتیں تو قصہئِ پارینہ بن چکی ہیں۔آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ باپوں کی ایک کثیر تعداد بیٹیوں کے مستقبل کی خاطر سرتوڑ کوشش کرتے ہیں،ان کے لیے سفر کی صعوبتیں جھیلنے،اور دیار ِ غیر کی ذلت ورسوائی برداشت کرنے کے پس ِ منظر میں ایک اہم سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس طریقے سے اپنی گوشہ ہائے جگر کو شادیوں کے موقع پر باوقار طریقے سے رخصت کرنے کے لیے کچھ مال واسباب جمع کر پائیں۔ جب باپوں کی نگاہوں میں بیٹیوں کی یہ حیثیت اور اہمیت ہو،تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان کا احتساب مشفق،مہربان اور اتنے چاہنے والے باپوں پر ہمیشہ ہی بے اثر اور بے کار ثابت ہو؟
Flag Counter