Maktaba Wahhabi

246 - 288
’’وہ عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:’’کیا مجھے یہ بات نہیں بتلائی گئی کہ تمہیں کوئی عوامی ذمہ داری سونپی جاتی ہے،پھر جب تمہیں کام کی اجرت دی جاتی ہے،تو تم اس کو ناپسند کرتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی:’’کیوں نہیں۔’‘[یعنی آپ کو میرے بارے میں درست اطلاع ملی ہے] میں نے[مزید]گزارش کی:’’میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں،اور میری[معاشی]حالت اچھی ہے،اور میں چاہتا ہوں کہ میرے کام کا معاوضہ مسلمانوں کے لیے صدقہ رہے۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ایسے نہ کیا کرو۔جس بات کا تم نے ارادہ کیا ہے،میں نے بھی اسی بات کاارادہ کیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے[بیت المال سے]عطا فرماتے،اور میں عرض کرتا:’’مجھ سے زیادہ ضرورت مند کو عطا فرما دیجیے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس کو لے کر اپنے مال میں شامل کر لو،اور پھر اس کا صدقہ کر دینا۔اس مال میں سے جو کچھ طمع اور سوال کے بغیر تجھ تک پہنچ جائے،اس کو لے لیا کرو،اور جو اس طرح تجھ تک نہ پہنچے،اس کا لالچ نہ کرو۔‘‘ ٭٭٭
Flag Counter