کر سختی میں نرمی کی آمیزش فرما کر یہ بات واضح کر دی کہ ان کی سختی کا مقصود بھی اپنے بھانجے کی مصلحت ہے۔
2 اس قصے میں ام المومنین کی قرآن فہمی کا عظیم ملکہ ظاہر ہوتا ہے۔امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
((قَالَ الْعُلَمَائُ:ہٰذَا مِنْ دَقِیْقٍ عِلْمِہَا وَفَہْمِہَا الثَّاقِبٍ،وَکَبِیْر مَعْرِفَتُہَا بِدَقَائِقِ الْأَلْفَاظِ لِأَنَّ الآیَۃَ الْکَرِیْمَۃَ إِنَّمَا دَلَّ لَفْظُہَا عَلٰی رَفْعِ الْجَنَاحِ عَمَّنْ یَّطَّوَّفُ بِہِمَا،وَلَیْسَ فِیْہِ دَلاَلَۃٌ عَلٰی عَدْمِ وَجُوْبِ السَّعْي،وَلاَ عَلٰی وَجُوْبِہِ،فَأَخْبَرْتْہُ عَائِشَۃُ رضی اللّٰه عنہا أَنَّ الْآیَۃَ لَیْسَتْ فِیْہَا دَلاَلَۃٌ لِلْوُجُوْبِ وَلاَ لِعَدْمِہٖ۔))
’’علماء نے فرمایا ہے:یہ بات ان کے دقیق علم،بلندئ فہم اور الفاظ کی باریکیوں سے گہری شناسائی پر دلالت کناں ہے،کیونکہ آیت کریمہ کے الفاظ تو صرف ان کے درمیان سعی کرنے والے سے گناہ کی نفی پر دلالت کرتے ہیں۔ان میں سعی کے وجوب یا عدم وجوب کے متعلق کچھ بھی نہیں،عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو یہی بتلایا کہ آیت کریمہ میں[سعی کے]وجوب یا عدم وجوب کے متعلق کچھ بھی نہیں۔
3 ام المومنین رضی اللہ عنہاکا طرز استدلال کس قدر اعلی،عمدہ اور قوی تھا۔انہوں نے سب سے پہلے آیت کریمہ کا شان نزول بیان کیا،پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بیان کی ذمہ داری انہی کو تو سونپی تھی [1] پھر حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل کو پیش کیا،جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب وحکمت کی تعلیم خود دی۔
|