Maktaba Wahhabi

199 - 276
گے،قیامت کے دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے،اسی طرح ہوتا رہے گا یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہو جائے گا۔‘‘[1] اس حدیث میں حق سے مراد،زکاۃ ہے،جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے: ((مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ)) ’’جو صاحب مال اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا۔‘‘[2] (3) تجارتی اموال : اس سے مراد زمین،جانور،سامان خور و نوش اور گاڑیوں جیسی ہر وہ چیز ہے جو تجارتی مقاصد کے لیے تیار کی جائے،چنانچہ سال مکمل ہونے پر اس کا مالک اس مال کی موجودہ قیمت کا اندازہ لگائے اور اس قیمت کا اڑھائی فیصد بطور زکاۃ دے،چاہے اس کی موجودہ قیمت اس کی قیمت خرید کے برابر ہو یا کم یا زیادہ۔ اسی طرح جنرل اسٹورز،گاڑیوں کے شو رومز اور سپیر پارٹس وغیرہ کے مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی دکانوں میں موجودہ سامان کی ہر چھوٹی بڑی چیز شمار کرکے حساب لگائیں اور اس کی زکاۃ ادا کریں،اگر ان کے لیے ہر چھوٹی بڑی چیز کا شمار ناممکن ہو تو احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے اس طرح زکاۃ ادا کریں کہ بری الذمہ ہو سکیں۔ (4) مویشی : اس میں اونٹ،گائے،بکری اور بھیڑ شامل ہیں،بشرطیکہ وہ جانور چراگاہوں میں چرنے والے ہوں،دودھ اور افزائش نسل کے لیے پالے گئے ہوں اور زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جائیں۔ چرنے والے جانوروں سے مراد وہ جانور ہیں جو سال بھر یا سال کا بیشتر حصہ چراگاہوں کی گھاس پھوس پر گزر بسر کریں لیکن اگر چراگاہوں کی گھاس وغیرہ پر گزر بسر نہیں ہے تو پھر زکاۃ
Flag Counter