Maktaba Wahhabi

104 - 276
ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّٰهُ ۚ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ’’آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجیے کہ وہ گندگی ہے،حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔ ہاں،جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس وہاں سے جاؤ جہاں سے اللہ نے تمھیں اجازت دی ہے۔‘‘[1] مَحِیْض سے مراد حیض کا وقت اور حیض کی جگہ (شرمگاہ) ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا النِّكَاحَ)) ’’جماع کے سوا ہر چیز کی رخصت ہے۔‘‘[2] امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ جس نے حیض کی حالت میں جماع کیا وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا۔‘‘ ہمارے اصحاب (حنابلہ) اور دیگر فقہاء فرماتے ہیں: ’’جس نے حائضہ سے جماع کو حلال سمجھا،اسے کافر سمجھ لینا چاہیے۔‘‘ البتہ خاوند کے لیے بوس و کنار کرنا اور بغل گیر ہونا اور مباشرت کرنا جائز ہے۔ زیادہ بہتر ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیان والے حصہ سے مباشرت نہ کرے،کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے:
Flag Counter