اللہ پر زور ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر کسی بزرگ، صالح یا نبی کے ذریعہ دباؤ ڈالنا سخت بے ادبی اور انتہائی گستاخی ہے نہ اس سے بڑھ کر کوئی صاحب اختیار ہے اور نہ اس کا کوئی مقابل۔ یا ہمسر ہے جس کے ذریعہ وہ ڈر کر بات مان لے یا دعا قبول کر لے کہ اس بے نیاز کے بارے میں ایسا قصور بھی ایمان کے ضائع کرنے کا سبب نہیں ہے؟
قرآن کریم میں کئی ایک مقامات پر دعاؤں کی تعلیم دی گئی ہے پیغمبروں کی دعائیں بھی ذکر کی گئی ہیں ۔ کسی دعا میں بھی بحق فلاں دعا مانگنے اور خدائی قرب چاہنے کا کوئی طریقہ نہیں سکھایا گیا۔ بلکہ بندہ کو براہِ راست اپنے مالک سے خطاب کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، اور انبیاء کرام نے اسی پر عمل کر کے رہنمائی کے فرائض سر انجام دیے، احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مختلف اوقات میں مختلف دعائیں ملتی ہیں ۔ آپ نے صحابہ کرام کو سکھائی ہیں ، لیکن کسی دعا میں یہ الفاظ مذکور نہیں کہ تم میرے طفیل میرے واسطہ اور بحق مصطفی دعا مانگو، حضور کی تعلیم و آداب سے اس طرح دعائیں مانگنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے بعد تابعین کا دور آتا ہے، ان میں بڑے بڑے محدثین ائمہ فقہا اور علما گزرے ہیں ان کی تصنیفات اور ان کے علم و عمل سے بھی مذکورہ طرز کا کوئی پتہ نہیں چلتا، اپنے فطری خواص کی بناء پر بدعات جب انسان کو اللہ سے دور تر کر دیتی ہیں تو اسے اللہ کے متعلق اسی قسم کی بد ظنی اور بے اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے اور بحق مصطفی یا بحق فلاں فلاں دعاؤں میں دہرانا اسی بدظنی و بے اعتمادی کی پیداوار ہے، اور تعلیم قرآنی اور سنت نبوی کے یکسر خلاف، بندہ عاجز اپنے دل کی ہر ایک بات بلا روک ٹوک اللہ تعالیٰ سے عرض کر سکتا ہے۔ قرآن و سنت میں اسی آزاد سوال کی تعلیم دی گئی ہے۔
قبولیت دعا کی صورتیں :
((اَنَّ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم قَالَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُوْا بِدَعْوَۃٍ لَیْسَ فِیْہَا ثَمٌّ وَلَا قَطِیْعَۃُ رَحِمٍ اِلَّا اَعْطَاہُ اللّٰہُ بِہَا اِحْدٰی ثَلاثٍ اِمَّا اَنْ یُعَجِّلَ لَہٗ دَعْوَتَہٗ وَاِمَّا اَنْ یَدَّخِرَہَا لَہٗ فِی الْآخِرَۃِ وَاِمَّا اَنْ یَصْرِفَ عنہُ مِنَ السُّوْئِ مِثلَہَا۔)) (احمد مشکوٰۃ باب ذکر اللّٰہ)
|