Maktaba Wahhabi

326 - 366
ختم مروجہ کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی کی گرامی قدر رائے مردوں کو ایصال ثواب کے لیے ختم خوانی کا رواج خیر القرون میں تو تھا نہیں کہ اس وقت کے دلائل پیش کیے جائیں اصولی طور پر اس طرز کے ان تمام اعمال کے لیے جو اجرت پر حصول ثواب کی خاطر ادا کیے جاتے ہیں ۔ قرآن کی آیت: ﴿وَلَا تَشْتَرُوْا بِآیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ کافی روشنی ڈالتی ہے، لیکن اہل نفس کی حیلہ جوئیاں قرآن کی سیدھی سادی تعلیم کچھ اس انداز سے پردے ڈال دیتی ہیں کہ عوام کے فکر و اعتقاد پر حقیقت کی جلوہ پاشیاں عام نہیں ہو سکتیں ۔ مشہور محقق عالم ابن قیم کی رائے تو آپ معلوم کر چکے۔ اب علامہ شامی کی تحقیق بھی سن لیجئے: ۱۔ ((وقد علمت ان جل المتون واصلہا صرحوا بعدم الجواز علی الاذان والا قامۃ مع انہما من اعظم شعائر الاسلام ولم ینظر الٰی ما فی ضیاعہما من الضر والعام فما بالک بالاشتراء بآیات اللّٰہ ثمنًا قلیلاً فای الیہ لیکون علی جوازہ دلیلا مع ما سمعتہ من النقول عن الا مامیین الجلیلین مالک والشافعی مِن عدم وصول الثواب بدون اجرۃ فی العبادات البدنیہ کالقرأۃ ونحوہا فکیف بالاُجرۃ… الخ۔)) ’’اور تم نے یہ بات تو معلوم کر ہی لی کہ اکثر معتبر متون نے اذان اور اقامت پر اجرت لینے کے عدم جواز کی تصریح کی ہے باوجود یکہ یہ اسلام کے سب سے بڑے شعائر میں سے ہیں ، اور انہوں نے اس نقصان عام کا جوان کے ضائع
Flag Counter