شخص ان کی دکان سے یہ اجناس خرید نہیں سکتا۔ اس فساد کبیر سے اندازہ لگائیے کہ عمل و احسان کی قدر و قیمت کس حد تک گھٹا دی گئی ہے۔
فقہاء کرام کی آراء:
شرح ہدایہ میں محمود بن احمد حنفی لکھتے ہیں :
((ان القرآن لا یستحق بالاجرۃ الثواب لا للمیت ولا للقاری۔)) [1]
’’اجرت پر جو قرآن پڑھا جاتا ہے اس کا ثواب نہ میت کو اور نہ پڑھنے والے کو ملتا ہے۔‘‘
شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ فتاویٰ عزیزی، ج: ۱، ص: ۸ پر اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’چند ٹکوں کے عوض تلاوت قرآن کا ثواب بیچنا اہل سنت کے نزدیک باطل امر ہے اور مزدوری پر پڑھنے پڑھانے والے کو کوئی ثواب نہیں بیچتا۔‘‘
احمد رضا خان بریلوی بھی ختموں کے جواز پر جب کوئی صریح دلیل نہ پا سکے تو ایک عجیب حیلہ کی شکل میں قبروں پر کچھ روز تک قرآن خوانی کے لیے چند سطریں لکھ سکے۔ آپ نے جواب دیا:
’’تلاوت قرآن پر اجرت لینا دینا حرام ہے اور حرام پر استحقاق عذاب ہے نہ کہ ثواب، البتہ حافظ کو کچھ روز کے لیے نوکر رکھ لیا جائے اور اس کے ذمہ یہ بھی لگایا جائے کہ تم فلاں قبر پر اتنی دیر تک قرآن پڑھ آیا کرو۔‘‘ [2]
موجودہ بدعت کو قائم رکھنے کے لیے مولانا مذکور کو کتنی زحمت اٹھانا پڑی ہے اور کس قدر حیلہ بازیوں سے کام چلانا پڑا ہے۔ لیکن بدعت کو بدعت کہنے کی جرأت اس لیے نہیں کہ اس طبقہ کی روزی کا مسئلہ ہے۔
|